منزل کا سراغ
#منزل_کا_سراغ
قریبا رات 11 کا وقت ہوگا، نیند نہیں آرہی تھی،بستر پہ لیٹا آنکھیں بند کیں لیکن نیند کہاں ۔۔۔۔۔
پھر موبائل نکالا یوٹیوب سکرولنگ شروع کردی سامنے ایک موٹیویشنل سپیکر کا کلپ آگیا ، کہہ رہے تھے ابھی سے طے کرلو تمہیں کس منزل کی جانب جانا ہے ؟ پھر اسی منزل تک پہنچنے میں اپنی طاقت صرف کرو۔
یہ سنتے سنتے خیالوں کے دریچے کھلے اور اپنا خیال آگیا کہ
آخری تعلیمی سال ہے اسکے بعد کیا کرنا ہے ؟ میری منزل کیا ہے ؟
ایک خیال ذھن میں یہ آیا کہ اب پاس اچھی خاصی ڈگریاں ہیں ، کسی اچھے سکول کالج یا یونیورسٹی میں لیکچرار لگ سکتا ہوں، یوں آمدن کا ذریعہ بھی بن جائے گا اور وقت بھی گزرتا رہے گا۔۔۔۔۔ لیکن اسکے بعد کیا ؟
اپنے آپ سے پوچھنے لگا کیا سکول ٹیچر بننا ہی تمہاری منزل ہے ؟ اور پاکستان اس طرح کے سکول ٹیچرز کے ساتھ بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے کونسا ایسا انقلابی عمل کرلیا کہ تم میں ایک ٹیچر بننے کی خواہش پیدا ہوگئی ؟
پھر خیال آیا ایک مقرر بن جاؤں گا ۔۔۔ کسی مسجد میں جمعہ پڑھا لیا اور ساتھ ساتھ کوئی مدرسہ کھول لوں گا ۔۔۔
لیکن اب کی بار ضمیر تھوڑی سختی دکھاتے ہوئے پوچھنے لگا ؟
کہ آخر ان مشہور و معروف خطباء سے تمہارے مذھب و مسلک اور معاشرے کو کیا فائدہ مل رہا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انکی اپنی تجوریاں بھرتی جارہی ہیں دین خسارے میں جاتا ہے تو جائے ۔۔۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
یہاں تو لوگوں کو فکر آخرت پہ درس دینے والا خطیب بھی کم از کم پچاس ہزار روپے لیکر میں یہ باتیں کہتا۔۔۔۔
تو جہاں اتنے خطیب ہیں اور وہ اس معاشرے کی رتی بھر اصلاح نہیں کرسکے تو تم کیا کرلو گے ؟؟؟
پھر سوچنے لگ گیا کہ اگر میں مدرسہ نا آتا اور کسی اچھے کالج سے ایم بی بی ایس کرلیتا ایک ڈاکٹر بن جاتا تو ۔۔۔۔۔۔
ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ پھر وہ استفسار ۔۔۔۔
کہ بھائی پاکستانی معاشرے میں ڈاکٹرز کیا کررہے ہیں ؟
آج کل تو ڈاکٹرز کی بھی دکانیں ہیں ۔ کمشن کے چکر میں مریضوں کو مہنگی اور غیر مفید ادوایات تجویز کرتے ہیں۔
چلیں پھر جج یا وکیل کا پیشہ بچتا ہے ؟
لیکن اس شعبے میں بھی تو لاکھ ہا خامیاں موجود ہیں۔۔۔
چلو ایک لکھاری بن جاؤ۔۔۔ جھٹ سے خیال آیا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔
لیکن کتاب پڑھنے کا آج کل روج ہی کہاں ؟
آج کل کے مصروف دور میں کون تمہاری بے ذائقہ تحاریر پڑھے گا ۔۔۔۔
پھر سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے ؟؟
ایک مسجد کا امام
ایک خطیب
ایک ٹیچر
ایک لکھاری
یا اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار ؟؟
کیا کروں ؟؟
کونسی راہ اختیار کروں کہ منزل بھی مل جائے اور سکون بھی۔۔۔۔۔
نا فکر معاش ہو، نا بے چینی ۔۔۔
پھر خیال آیا کیا جن کے پاس بہت دولت ہے وہ خوش ہیں ؟
نہیں ! وہ بھی تو خوش نہیں ہیں ۔۔۔
کوئی کرپشن کے کیسسز کا سامنا کررہا ہے ..
کوئی مذید کمانے کے چکر میں بے سکونی کا شکار نظر آتا ہے۔۔
کوئی حلال و حرام میں تمیز نا کرنے کی وجہ مستوجب گناہ ہے۔۔
بس یہ عجیب و غریب سے خیالات ہیں جنہوں نے ذھن پہ ڈیرہ جمایا ہوا ہے ۔
اگر پیسہ کمانا تمہاری منزل ہے تو پھر تعلیم پہ وقت اور پیسہ کیوں برباد کیا ؟
کیا فقط نمازیں پڑھانے ، تقریر کرنے، یا معلم بننے سے تمہارا فرض پورا ہوجائے گا ۔۔؟
آخر خلیفۃ اللہ ہونا کوئی چھوٹا اعزاز ہے ؟
کہ تمہیں کوئی ایسا انقلابی کام نہیں کرنا چاہیے جو اس وقت کی اہم ضرورت ہو ؟
لیکن وہ انقلابی کام ہے کیا ؟
جس سے مجھے میری منزل ملے ۔۔۔
جس سے مجھے سکون ملے ۔۔۔۔
جس سے مجھے راحت نصیب ہو۔۔۔
خلیفہ اللہ ہونے کا حق ادا ہو۔۔۔
۔۔۔۔
پھر خیال آیا کہ یہ باتیں صرف تم ہی سوچ رہے ہو ۔۔۔ باقی تو کبھی اس طرح نہیں سوچتے ۔۔کیونکہ تم نے جسے دیکھا وہ اپنی ہی دھن میں نظر آیا وہ ڈاکٹر ہو انجنئیر جج وکیل سیاستدان ٹیچر یا کوئی اور۔۔۔
ابھی تک تو ذھن سوچ سوچ کر بوجھل سا ہوگیا ہے ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہی راستہ دکھانے والا سب کا مددگار ہے ۔۔۔۔
کس آرزو میں جسم جلاتے ہیں رات دن
سچ پوچھئے تو اسکی ہمیں بھی خبر نہیں
#احتشام_فاروقی
۱۴فروری ۲۰۲۲
Comments
Post a Comment