پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے آئی ایس آئی کا کردار
Mission Impossible
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے واسطے آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخور ، دنیا کی تاریک اور گمنام گلیوں میں مارے گئے۔ جوہری سامان کو پاکستان منتقل کر نے کے لئے بھارت کے ائیرپورٹ استعمال کر دئیے ، بھارت خفیہ ادارے دیکھتے رہ گئے۔
18 مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بوھدا (smiling bhudha) نامی ایٹمی دھمکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976 میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔1977 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی ، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لئے اہم اقدام اٹھائے۔حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔پاکستان نے اس مقصد کے لئے یورپ ، مشرق وسطیٰ ، سنگاپور اور بھارت میں آئی ایس آئی کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انہیں پاکستان میں مختلف ممالک کے راستے منتقل کردیتے تھے۔ امریکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکہ نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی، کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن جرمن نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشئم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا میعار پرکھنے والا آلا سپکٹرو میٹر، ٹریشئم ٹیکنالوجی سمت اور بہت سارے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے۔ آئی ایس آئی نے اس مقصد کے لئے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ اصل میں یہ ایک الجھن والی جنگ تھی۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ اس سارے پروسیسر میں پاکستانی حاکم ضیاء الحق کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیئم برت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکہ نے ایلومینیئم برت کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم برت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان لائے جانے تھے ۔ یاد رہے ایلومینیئم برت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستے ایلومینیئم برت کے پائپ پاکستان لانے کے لئے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈالوانے کے لئے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ کیونکہ حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں، جس کے بعد بھارت ثبوتوں کیساتھ دنیا میں واویلا مچانا شروع کر دے۔ یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ کیونکہ سنگاپور کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لیکر جانی تھیں۔ ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخوروں نے اٹھایا۔ آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ اس مقصد کے لئے آئی ایس آئی کے سپیشل کمانڈ کو پہلے بھارت اور سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تائنات کیا گیا۔ اور پھر بالکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے ، کئی گھنٹوں سٹے کرنے کے بعد تیل ڈالوایا اور پاکستان آئے ۔ بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا کہ پاکستان اس کے ائیرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کے لئے استعمال کر چکا تھا۔ یہ دنیا کی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا۔ جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا۔ یوں ہی نہیں کہتے کہ آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ہے۔ جو پاکستان کی سلامتی کی خاطر ہر حد عبور کر جاتی ہے
دوستوں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکریٹ ایجنٹ بڑے ٹھاٹھ سے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ تھوڑی سی دیر کے لئے تصور کریں، محض فرض کی ادائیگی کے جرم میں کسی کے سارے ناخن پلاس سے کھینچ لئے جاتے ہیں، کسی کے دانت اکھاڑ دیئے جاتے ہیں ، کسی کو بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں ، کسی کو برف کی سیلوں پر گھنٹوں لیٹایا جاتا ہے، کسی کے پیروں کے تلوے ہیٹر سے داغ دیئے جاتے ہیں۔ تو کسی کو ہاتھ سے لیکر پورے بازو میں پسٹل سے اور ڈرل مشین کیساتھ ہر چھ انچ کے فاصلے پر سراخ کردئیے جاتے ہیں۔ چند لمحوں کے لئے یہ سب سوچ کر درد محسوس ہوا، اس پاک زمین کے سینکڑوں بیٹے ان تکلیفوں سے گزر کر شہید ہو چکے ہیں۔ کس لئے ؟ محض ہمارے لئے۔ آپ کو پتہ ہے بیرون ملک جانے سے قبل اس ملک کے مارخوروں کو سائنائیڈ زہر کا ایک کیپسول بھی دیا جاتا ہے ۔ اور زیر دینے والا کوئی اور نہیں وہ سینئر افسر ہوتا ہے جو ایجنٹ کو اپنے بچوں سے بڑھ کر چاہتا ہے اور تربیت کرتا ہے ، پر آخری وقت یہ تاکید کرتا ہے کہ بیٹے اگر پکڑے گئے تو دشمنوں کے ہاتھ آنے سے پہلے یہ زہر استعمال کر لینا، ہماری زندگی پاکستان سے اہم نہیں ہے۔ تصور کریں کوئی اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے زہر کھانے کا کہہ سکتا ہے , مگر یہ لوگ کہتے ہیں ۔ کس کے لئے؟ محض ہمارے لئے۔ دوران ڈیوٹی شہادت پانے والے کو بڑے اعزاز سے دفنایا جاتا ہے۔ مگر یہ واحد لوگ ہیں جو #گمنامی کی زندگی جی کر #گمنام موت شہید ہو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کا جذبہ کیا ہو گا جن کی لاشیں لینے بھی کوئی نہیں جا سکتا ، اور بنا شور شرابہ ان کو دفن کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ آسان ہوتا ہے کہ آپ اپنے کولیگ کی لاش وصول کرنے بھی خود نہ جا سکیں، ان کے بچے بھی ہوتے ہیں، گھر والے بھی، بھائی بھی اور ماں باپ بھی ۔ ایسا آج تک نہیں ہوا کہ مشن پر جانے سے قبل کسی ایجنٹ نے اپنے مشن کے متعلق بتایا ہو۔ شہادت پانے کی صورت میں بعض دفعہ گھر والوں کو کئی کئی سال علم نہیں ہوتا کہ ہمارا بھائی ، بیٹا یا باپ شہید ہو چکا ہے۔ یہ لوگ کس لئے کرتے ہیں ؟ یہ سب محض ہمارے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کو بنا دیکھے, بنا ان کو ملے ساری زندگی محض سیکرٹ ایجنٹ کے خیال سے ان کو محبت کرتے ہیں۔ وہ بھی تو بنا ہمیں دیکھے بنا ہمیں ملے ہمارے لئے جان دیتے ہیں۔ تو پھر ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم بھی ان کو بنا دیکھے بنا ملے ان کی خاطر جان دینے کی سوچ اپنائیں۔ اور ہاں کسی سیکرٹ ایجنٹ کی زندگی اس سے کہیں زیادہ تلخ اور سخت ہوتی ہے
Comments
Post a Comment