طریقہ وضو مکمل صحیح احادیث کی روشنی میں ٭٭٭

٭٭٭ 

وضو کے شروع میں بسم اﷲ کہنا ضروری ہے ،کیونکہ نبی نے اس کا حکم دیا ہے ۔

دلیل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( توضؤوا باسم اﷲ)) (صحیح نسائی:۷۶) 
’’وضو (کی ابتدا) بسم اللہ کے ساتھ کرو۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاصلوٰۃ لمن لا وضوء لہ ولا وضوء لمن لم یذکر اسم اﷲ تعالیٰ علیہ))(صحیح ابوداود:۹۲)
’’جس کا وضو نہیں اس کی نما زنہیں اور جس نے اللہ کا نام نہ لیا، اس کا وضو نہیں۔‘‘ 

دونوں ہاتھوں کا دھونا
دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین دفعہ دھوئیں۔
دلیل: مولی عثمان، عثمان رضی اللہ عنہ کے مسنون وضو کا طریقہ یوں بیان کرتے ہیں : 
’’فأ فرغ علی کفیہ ثلاث مرار فغسلہما‘‘ (صحیح بخاری:۱۵۹) 
’’اُنہوں نے تین دفعہ اپنے ہاتھوں پرپانی ڈالا اور ان کو دھویا۔‘‘

انگلیوں میں خلال
ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرنا چاہئے۔
دلیل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أسبغ الوضوء وخلل بین الأصابع))(صحیح ابوداود:۱۲۹) 
’’وضو پورا کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو۔‘‘

کلی کرنا اور ناک جھاڑنا
(دائیں ہاتھ کے) ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی چڑھائیں(جھاڑیں) اور یہ عمل تین مرتبہ کریں۔
دلیل: عبداللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ بتلانے کے لئے پانی منگوایا تین مرتبہ اپنے ہاتھ دھوئے پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا

’’فمضمض واستنثر ثلاث مرات من غرفۃ واحدۃ‘‘(صحیح بخاری:۱۹۹)
’’پھر تین مرتبہ ایک ہی چلو سے کلُی اور ناک (میں پانی چڑھاکر) جھاڑا۔‘‘

ناک کس ہاتھ سے جھاڑا جائے
ناک بائیں ہاتھ سے جھاڑا جائے جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی کے وضو کا طریقہ بتلانے کے لئے پانی منگوایا 
’’فتمضمض واستنشق ونثر بیدہ الیسریٰ،ففعل ھذا ثلاثا ثم قال: ھذا طھور نبي اﷲصلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (صحیح نسائی:۸۹) 

’’پھرکلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور بائیں ہاتھ سے ناک کو جھاڑا یہ عمل تین مرتبہ کیا پھر فرمایا اللہ کے نبی کے وضو کا یہ طریقہ تھا۔‘‘

منہ کا دھونا 
اس کے بعد تین مرتبہ اُوک بھر پانی لے کر اپنے منہ کو دھویا جائے۔ 
دلیل: عبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ بتلاتے ہوئے یہ عمل بھی کیا کہ’’غسل وجھہ ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۵) ’’تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔‘‘

چہرہ میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس کے لئے مسح کا الگ عمل موجود ہے جو آگے ذکر کیا جائے گا۔

داڑھی کا خلال
منہ دھونے کے بعد چلو میں پانی لے کر اسے ٹھوڑی کے نیچے سے داڑھی میں داخل کریں اور داڑھی کا اپنی انگلیوں سے خلال کریں۔
دلیل: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
أن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا توضأ أخذ کفا من مائٍ فأدخلہ تحت حنکہ فخلل بہ لحیتہ وقال: ((ھکذا أمرنی ربی عزوجل)) (صحیح ابوداود:۱۳۲)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب چہرہ دھو لیتے تو چلو میں پانی لیتے اور ٹھوڑی کے نیچے سے پانی کو داخل کرتے داڑھی کا خلال کرتے اور آپ نے فرمایا: میرے رب نے مجھے اس امر کا حکم دیا ہے۔‘‘

کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کا دھونا
داڑھی کے خلال کے بعد کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کو دھوئیں پہلے دایاں ہاتھ تین مرتبہ دھوئیں پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ دھوئیں۔

دلیل: عثمان رضی اللہ عنہ کا مسنون وضو کرکے دکھانا جس میں یہ عمل بھی ہے کہ
’’ثم غسل یدہ الیمنی إلی المرفق ثلاثا،ثم غسل یدہ الیسری إلی المرفق ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری:۱۹۳۴)
’’پھر انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔‘‘ 

سر کا مسح
دونوں بازو دھونے کے بعد دونوں ہاتھوں کو تر کرکے سرکا مسح کریں اور سر کا مسح دو حالتوں میں ہوتا ہے: ننگے سر پر ڈھانپے ہوئے سر پراگر سر ننگا ہو تو دونوں ہاتھوں کو سر کی پیشانی کے بالوں سے شروع کرکے مسح کرتے ہوئے گدی تک لے جائیں پھر اسی طرح ہاتھوں کو واپس جہاں سے شروع کیا تھا وہیں لے آئیں۔

دلیل: عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے نبی کے وضو کا طریقہ سکھلاتے ہوئے مسح کا طریقہ عملی طور پر یوں بیان کیا:
’’ثم مسح راسہ بیدیہ فأقبل بھما وأدبر،بدأ بمقدم راسہ حتی ذھب بھما إلی قفاہ، ثم ردھما إلی المکان الذی بدأ منہ‘‘ 
’’پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا پس ان دونوں ہاتھوں کوآگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لے کر گئے سر کے آگے سے شروع کیا یہاںتک کہ ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان دونوں ہاتھوں کو جہاں سے شروع کیا تھا اسی جگہ واپس لے آئے۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۵)

ڈھانپے ہوئے سر پر 
اگر سر پر پگڑی وغیرہ ہو تو اس کے مسح کی دو صورتیں ہیں :
پگڑی کے اوپر سے اس طرح مسح کرلیا جائے جس طرح ننگے سرپرکیا جاتا ہے۔

دلیل: عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رأیت النبي یمسح علی عمامتہ وخفیہ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۵) 
’’میں نے نبی کو اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔‘‘

پگڑی پرمسح اس طرح بھی سنت ہے کہ پیشانی کے بالوں پرمسح کرتے ہوئے باقی مسح پگڑی کے اوپر سے کرلیا جائے۔
دلیل: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کا عمل بیان کرتے ہیں کہ’’أن نبی اﷲ مسح علی الخفین ومقدم راسہ وعلی عمامتہ‘‘ (صحیح مسلم:۲۷۴)

’’بے شک نبی نے دونوں موزوں پر مسح کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے (پیشانی کے بالوں) پر اور اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘
اسی طرح اگر زخم وغیرہ پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس پر مسح کیاجاسکتا ہے۔ صحابہ کرام کا اس پر عمل تھا۔
دلیل: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’من کان لہ جرح معصوب علیہ توضأ ومسح علی العصائب ویغسل ماحول العصائب‘‘ (بیہقی:۱۲۲۸)
’’اگر زخم پر پٹی بندی ہوئی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کرکے ارد گرد کو دھولے۔‘‘

کانوں کا مسح
سر کے مسح کے بعد کانوں کے مسح کے لیے شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں پھیر کر کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کریں۔
دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ 
أن رسول اﷲ مسح أذنیہ داخلھما بالسبابتین وخالف إبھامیہ إلی ظاھر أذنیہ فمسح ظاھرھما وباطنھما (صحیح ابن ما جہ:۳۵۳)
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی دونوں انگلیوں کو کانوں میں داخل کرکے انگوٹھوں کو کانوں کی پشت پر رکھتے ہوئے کانوں کے اندر اور باہر (انگلیوں اور انگوٹھوں کی ایسی حالت) سے مسح کیا۔‘‘ 

کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں۔

دونوں پاؤں کو دھونا
مذکورہ بالا اعمال کے بعد تین تین دفعہ بالترتیب دائیں اور بائیں پاؤں کو ٹخنوں تک دھوئیں۔
دلیل: عثمان رضی اللہ عنہ سے مسنون عمل یوں مذکور ہے:

ثم غسل رجلہ الیمنی ثلاثا، ثم الیسری ثلاثا (صحیح بخاری: ۱۹۳۴)
’’پھر آپ نے اپنا دایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا اور اس کے بعد بایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog

پیش حق مژدہ شفاعت کا تضمین بر کلام امام احمد رضا

.کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہہ جائے گا تضمین بر کلامِ سیِّد کفایت علی کافیٓ علیہ الرحمہ