مرزا مظہر کون تھے

مرزا مظہر۔۔۔۔۔۔۔۔ 7

سَراجُ الّدِین خان آرزُو نے اَپنے چَند فارسی اَشعار سے آغاز کِیا ۔ پِھر ایک ایک کرکے شاعِر سامنے آتے رَہے ۔ وُہی اَنداز ، وُہی زَبان ، وُہی نازُک خَیالِیاں ، وُہی پامال مَضامِین ۔

مِرزا مَظہَر بَہُت جُزبُز ہو رَہے تھے لیکِن صَبر و تَحَمُّل کی تَصویر بَنے بَیٹھے تھے ۔ یَہاں تک کہ اَب اُنہیں پَڑھنا تھا ۔

" آپ تو فارسی کَلام لائے ہوں گے ؟ " خان آرزُو نے کَہا ۔
" جی نَہیں ۔ بَندَہ اُردُو بھی کَہہ سَکتا ہے ۔"
کِیُوں نَہیں ۔ کِیُوں نَہِیں ۔ کَئی آوازیں اُبھریں ۔

مِرزا مَظہَر جانِ جاناں نے غَزَل پیش کی ۔

گَئی آخِر جَلا کر گُل کے ہاتھوں آشِیاں اَپنا
نہ چھوڑا ہائے بُلبُل نے چَمَن میں کُچھ نِشاں اَپنا
  یہ حَسرَت رہ گَئی کیا کیا مَزے سے زِندَگی کَٹتی
    اَگر ہوتا چَمَن اَپنا گُل اَپنا باغباں اَپنا 
    مِرا جَلتا ہے جی اِس بُلبُلِ بے کَس کی غُربَت پر
    کہ جِس نے آسرے پَر گُل کے چھوڑا آشیاں اَپنا
    جو تُونے کی سو دُشمَن بھی نَہیں دُشمَن سے کَرتا ہے
   غَلَط تھا جانتے تھے تُجھ کو جو ہَم مِہرباں اَپنا
    رَقِیباں کی نہ کُچھ تَقصِیر ثابِت ہے نہ خُوباں کی
    مُجھے ناحَق سَتاتا ہے یہ عِشقِ بَد گُماں اَپنا
    کوئی آزَردَہ کَرتا ہے سَجَن کو اَپنے اے ظالِم
    کہ دَولَت خواہ اَپنا مَظہَر اَپنا جانِ جاں اَپنا

     لُطف یہ تھا کہ جِن لَفظوں پر اِعتَراض اُٹھتے تھے اُن میں سے ایک بھی اِستِعمال نَہیں ہُوا تھا ۔ ذُو مَعنی اَلفاظ اِستِعمال نَہیں ہُوئے تھے ۔ سادگی تھی ، بُلَند خَیالی تھی ۔ ہر شِعر دُرُودِ اَثَر میں ڈُوبا ہُوا تھا ۔ بَعض نے ناک بُھوں چَڑھائی لیکِن اَکثَرِیَّت کو اِن پُھولُوں سے تازَہ پُھولُوں کی خُوشبُو آئی۔
  
     ایک مُشاعرے نے اُن کا شُمار اَساتِذَہ میں کر دِیا ۔ دُوسرے ہی دِن شُہرَت قَلعے تَک پُہُنچ گَئی ۔ مُحَمَّد شاہ خُود لِسانی کوشِشُوں میں مَصرُوف تھا ۔ اُس کے ایک وَزِیر عُمدَةُ المُلک نے ایک اَنجمَن بھی قائِم کی تھی جو لَفظوں کو رائِج یا تَرک کرنے کا فَیصلَہ کرتی تھی ۔زَبانِ اُردُو اِبتَدائی مَنزِلوں پر تھی اور سَرکاری طور پر اِس کی تَرَقّی کے لیے کوشِشیں کی جا رَہی تھیں ۔ مَظہَر کی غَزَل قَلعے تک پُہُنچی تو بادشاہ اُن کا عَقِیدَت مَند ہو گَیا ۔

        اَپنے وَزِیر قَمَرُ الّدِین کو اُن کے پاس بَہ صَدِ شوق بھیجا جِس نے بادشاہ کا پَیغام پَڑھ کر سُنایا ۔

    " اَللّٰه تَعالیٰ نے مُجھ کو بادشاہَت اور مُلک عَطا کیا ہے ۔ جو کُچھ دِل میں آئے بَطورِ ہَدیہ قُبُول فَرمائیں ۔" 

    مِرزا مَظہَر کے بارِیک ہونٹوں پر ہَنسی کھیل گَئی ۔ ایک نَظَر وَزِیر قَمَرُالّدِین کو دیکھا اور کَہا " اَپنے بادشاہ سے کہنا ، اَللّٰه تَعالیٰ نے مَتاعِ  دُنیا کو قَلیل کَہا ہے ۔ آپ کے پاس اِس قَلیل مَتاع کا ساتوَاں حِصہ بھی نَہیں ۔ آپ کے پاس ہے کیا جو یہ فَقِیر قُبُول کَرے ۔" 

    وَزِیر اُن کی قناعَت پَسَندی پر حَیرَت زَدَہ اپنا سا مُنہ لے کر چَلا گَیا ۔ اُنہوں نے خُدا کا شُکَر اَدا کیا اور اَپنے نَفس کی اِصلاح کے لیے گَھر سے نِکَل کر شاہ گُلشَن کی خِدمَت میں پُہُنچ گَئے ۔

    اُن کے یہ ناز صِرف بادشاہوں اور اہلِ ثَروَت کے لِیے تھے ۔ اہلِ طَلَب کے لیے اُن کے دَروازے ہر وَقَت کُھلے رَہتے تھے ۔

    اُن کی شاعِری کی شُہرَت ہوئی تو شاعِرُوں کا مَجمَع رہنے لَگا ۔ شاعِر آتے ، اپنی غَزلیں سُناتے اور اُن کے صائِب مَشوَرُوں سے اَپنی اِصلاح کرتے ۔ چَند نَوجَوان اُن کے شاگِرد ہُوئے ( مِیر مُحَمَّد باقِر حَزیں ، لِیساوَن لَعل بیدار ، خواجہ اَحسَنُ اللّٰه خاں ، اِنعامُ اللّٰه خاں یَقِین )          لیکِن ہِدایَت کا چَشمَہ تو سب کے لیے جَل رہا تھا ۔ زَبان کی تَراش خَراش ، مَضامین کی وَضع قَطع میں جو اُن کا حِصّہ تھا وہ ہر مُشاعِرے میں نَظَر آنے لَگا ۔ دیکھتے دیکھتے وہ اَلفاظ مَترُوک ہو گَئے جو اَب تَک رائِج چَلے آرَہے تھے ۔ اُنہوں نے اُردُو شاعِری کو اَیسی راہ پر ڈال دِیا کہ آگے تَرَقی ہی تَرَقی تھی ۔ 

     لوگ شاعِروں کے اُستاد ہوتے ہیں ، وہ شاعِری کے اُستاد ٹھہرے ۔اُن کی خُوش اَخلاقی نے اُن کے اِتنے ہَمنَوا پَیدا کر دِیے کہ وہ ایک دَبِستان کی صُورَت اَختِیار کر گَئے ۔اُن کے اَشعار بَطَورِ سَنَد پیش کِیے جانے لَگے ۔ وہ جِس لَفظ کو جِس طَرح باندھ دیتے اُسی طَرح رائِج ہو جاتا ۔

Comments

Popular posts from this blog

پیش حق مژدہ شفاعت کا تضمین بر کلام امام احمد رضا

.کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہہ جائے گا تضمین بر کلامِ سیِّد کفایت علی کافیٓ علیہ الرحمہ