دفاع صحابہ

تحقیق حدیث رسول عزت مآبﷺ: لِمُعَاوِيَةَ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ
تحریر : بقلم رانا اسد الطحاوی الحنفی

333 – حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الدِّمَشْقِيَّانِ قَالَا: ثنا أَبُو مُسْهِرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ الْمُزَنِيِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ»

نبی کریمﷺ نے فرمایا : اے اللہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب اور فرائض کا علم سکھا اور انہیں عذاب سے بچا
(آمین)
(مسند الشاميين الطبرانی)

سند کے رجال کا تعارف!
۱۔ سند کا پہلا راوی :ابو زرعہ الدمشقی

امام ذھبی سیر اعلام میں انکی توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
۱۔ 146 - أبو زرعة الدمشقي عبد الرحمن بن عمرو
الشيخ، الإمام، الصادق، محدث الشام، أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو بن عبد الله بن صفوان بن عمرو النصري
قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: كان أبو زرعة الدمشقي رفيق أبي، وكتبت عنه أنا، وأبي، وكان ثقة صدوقا
وسئل أبي عنه، فقال: صدوق

ابو زرعہ الدمشقی یہ شیخ امام الصادق شام کے محدث ہیں
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں یہ میرے والد (ابی حاتم) کے دوست تھے اور ان سے لکھا ہے میں نے اور والد نے یہ ثقہ و صدوق ہیں
میرے والد سے انکے بارے سوال ہوا تو فرمایا یہ صدوق ہے
(سیر اعلام النبلاء برقم: 146)

۲۔ سند کا دوسرا راوی: ابو مسھر

یہ ثقہ ثبت ناقد رجال و محدث ہیں امام ابن معین و ابی حاتم کے ثقہ شیوخ میں سے ہیں
حدثنا عبد الرحمن نا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال أنا يحيى بن معين قال: نا أبو مسهر الدمشقي وكان ثقة.

حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عن أبي مسهر فقال: ثقة، وما رأيت ممن كتبنا عنه أفصح من أبي مسهر وابي الجماهير.

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ابو مسھر ثقہ تھے
اور امام ابی حاتم فرماتے ہیں کہ ابو مسھر ثقہ تھے اور میں نے ابو مسھر سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا جس سے بھی لکھا ہے
(الجرح والتدیل ابن ابی حاتم)

۳۔ سند کے تیسرے راوی : سعید بن عبدالعزیز 
امام ابن معین و امام ابی حاتم سے انکی توثیق مروی ہے 

حدثنا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين قال: سعيد بن عبد العزيز ثقة.
حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبي عن سعيد بن عبد العزيز فقال: ثقة.

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ سعید بن عبدالعزیز ثقہ ہیں 
امام ابی حاتم فرماتے ہیں کہ سعید بن عبدالعزیز ثقہ ہیں 
(الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، برقم:184)

۴۔ سند کے چوتھے راوی : ربیعہ بن یزید 
امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں کہ انکو امام نسائی سمیت جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے  نیز یہ صحیحین کے راوی ہیں 

1916 - [ع]: ربيعة  بن يزيد القصير أبو شعيب الإيادي الدمشقي،
أحد الأعلام.
وثقه النسائي وجماعة.
(تاریخ الاسلام الذھبی)

امام ابن حبان ثقات میں درج کرتے ہیں اور امام عجلی بھی ثقات میں درج کرتے ہیں 
نیز امام ابن سعد بھی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ربيعة بن يزيد وكان ثقة
(طبقات ابن سعد)

۵۔ پانچوے راوی صحابی رسول : حضرت عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني

درج ذیل اماموں نے انکے صحابی ہونے کی تصریح کی ہے 

۱۔ امام بخاریؒ
امام بخاری نے اپنی تصنیف التاریخ الکبیر جو سماع و ملاقات کے لیے لکھی تھی راویان کی اس میں یہ روایت نقل کرکے ثابت کیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عمیرہ صحابی رسولﷺ ہیں اور ان سے سماع کیا ہے 

791 - عبد الرحمن  بن أبي عميرة المزني ، يعد في الشيامين، قال أبو مسهر حدثنا سعيد بن عبد العزيز عن ربيعة بن يزيد: عن ابن أبي عميرة قال النبي صلى الله عليه وسلم لمعاوية: اللهم اجعله هاديا مهديا واهده واهد به، وقال عبد الله عن مروان عن سعيد عن ربيعة: سمع عبد الرحمن سمع النبي صلى الله عليه وسلم - مثله.
(تاریخ الکبیر بخاری)

۲۔ امام ابن ابی حاتمؒ 
1296 - عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني، له صحبة يعد في الشاميين
عبدالرحمن بن ابی عمیرہ المزنی انہوں نے صحبت (رسولﷺ) پائی ہے 
(الجرح والتعدیل )

۳ ۔امام ابن سعد:
3746- عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني.
وكان من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -

حضرت عبدالرحمن یہ اصحاب رسول میں سے تھے 
(ابن سعد الطبقات)

۴۔ امام ذھبی  

3281- عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني صحابي عنه خالد بن معدان والقاسم أبو عبد الرحمن ت
امام ذھبی فرمتے ہیں عبدالرحمن بن ابی عمیرہ المزنی یہ صحابی رسول ہیں 
(الکاشف الذھبی)

اسی طرح 
۵۔ امام ابن حجر عسقلانی ،
 ۶۔ امام سیوطی ، 
۷۔ امام ابو نعیم ، 
۸۔ امام بغوی
 اور جمہور محدثین اتفاق سے حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ کو صحابی رسول ﷺ میں شمار کیا ہے

اس تحقیق سے یہ روایت صحیح الاسناد ثابت ہے 

اس روایت پر دو اعتراضات مروی ہوتے ہیں کہ 
سعید بن عبدالعزیز کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا 
اور عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني کے صحابی ہونے کا انکار کیا ہے امام ابن عبدالبر نے 

الجواب :
صحابی رسول  عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني انکی صحیح الاسناد سے سماع کی تصریح بھی ثابت ہے جیسا کہ امام بخاری اور دیگر کتب حدیث میں صحیح سند سے ثابت ہے نیز ۸ جید محدثین سے ہم نے انکے صحابی ہونے کا ثبوت بھی پیش کر دیا تو یہ اعتراض رفع ہو گیا 

اور سعید بن عبدالعزیز سےابو مسھر کا سماع قبل اختلاط ہے جسکے دلائل درج ذیل ہیں :

 امام ابو مسھر جو کہ ناقد رجال ہیں اور خود سعید بن عبدالعزیز کے خاص شاگرد ہیں ان سے تفصیل پیش کرتے ہیں جس سے اس باطل اعتراض کی عمارت بھی زمین بوس ہو جائے گی 

امام ابو مسھر ہی یہ اختلاط کی جرح بیان کرتے ہیں اپنے شیخ سعید بن عبدالعزیز کے بارے وہ کہتے ہیں :

5377 - سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ أَبُو مسْهر كَانَ سعيد بن عبد الْعَزِيز قد اخْتَلَط قبل مَوته وَكَانَ يعرض عَلَيْهِ قبل أَن يَمُوت وَكَانَ يَقُول لَا أجيزها

ابو مسھر کہتے ہیں سعید بن عبدالعزیز اپنی موت سے قبل اختلاط کا شکار ہو گئے تھے(یعنی موت کے بالکل قریب) اور موت واقع ہونے سے پہلےان پر (احادیث) پیش کی جاتی تو وہ اسکی اجازت نہ دیتے تھے 
(تاريخ ابن معين (رواية الدوري)

امام ابو مسھر بیان کرتے ہیں جب اختلاط جو کہ انکی موت سے کچھ وقت پہلے ظاہر ہوا تو جب ان سے روایات کے لیے حدیث پیش کی جاتی تو وہ انکار کر دیتے تھے اختلاط وقع ہونے کی وجہ سے 

تو امام مسھر خود جب اپنے شیخ کے بارے تصریح کر دی ہے انکو اختلاط انکی موت واقع ہونے سے فقط قبل ظاہرہوا تو جب وہ ان سے احادیث بیان کرتے ہیں تو قبل اختلاط سنی ہوئی بیان کرتے ہیں 

اس پر اور دلائل مضبوط پیش کرتے ہیں تاکہ مذید اعتراضات کا راستہ ہی بند کر دیا جائے 

امام ابوحاتم کہتے ہیں :
حدثنا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان أبو مسهر يقدم سعيد بن عبد العزيز  على الأوزاعي.
امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ  ابو مسھر سعید بن عبدالعزیز کو الاوزاعی پر مقدم یعنی ترجیح دیتے تھے 
(الجرح والتعدیل)

اگر امام ابو مسھر جو خود اپنے شیخ پر اختلاط کی جرح بھی کرتے ہیں وہ اپنے اختلاط زدہ شیخ سے سماع قبول اختلاط نہ کیا ہوتا تو وہ امام اوزاعی جیسے ثقہ ثبت امام پر کیسے ترجیح دیتے ؟ 

اور یہ بھی ثابت ہے کہ امام سعید بن عبدالعزیز الاوزاعی کے فوت ہونے کے دس سال تک زندہ رہے جیسا کہ ابو مسھر بیان کرتا ہے جسکو امام یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں :

سَمِعت يحيى يَقُول قَالَ أَبُو مسْهر بقى سعيد بن عبد الْعَزِيز بعد الْأَوْزَاعِيّ عشر سِنِين قَالَ يحيى قَالَ لي أَبُو مسْهر وَولد فِي زمن الْأَوْزَاعِيّ
ابو مسھر نے کہا کہ سعید بن عبد العزیز، اوزاعی کے بعد دس سال زندہ رہے ۔یحیی نے کہا مجھ سے ابومسھر نے کہا اور اوزاعی کے زمانے میں پیدا ہوا تھا۔
(التاریخ  بن معین بروایت الدوری )

اور امام ابو مسھر نے کتنا عرصہ امام سعید بن عبدالعزیز کی صحبت پائی وہ بھی انہوں نے بیان کردیا ہے 

چناچہ امام الفسوی اپنی تصنیف المعرفہ التاریخ میں سند صحیح سے بیان کرتے ہیں :

حدثنا عبد الرحمن بن عمرو قال: حدثنا أبو مسهر قال: جلست إلى سعيد بن عبد العزيز بن أبي يحي التنوخي ثنتي عشرة سنة، ومات سنة سبع وستين ومائة.

امام ابو مسھر کہتے ہیں کہ میں امام سعید بن عبدالعزیز کے ساتھ ۱۲ سال بیٹھا (یعنی ۱۲ سالے کے عرصے تک حدیث کا سماع کیا اور صحبت میں رہا  )
اوران (سعید بن عبدالعزیز ) کی وفات 167ھ میں ہوئی 
 (المعرفة والتاريخ)

یعنی ابو مسھر کا سماع سعید بن عبدالعزیز سے 155ھ میں ہو گیا تھا 
اور اسکے ۱۲ سال بعد امام سعید بن عبدلعزیز 167ھ میں فوت ہوئے بقول امام ابو مسھر کے
اور یہ روایت امام ابو مسھر ان سے انکی وفات سے 12 سال پہلے سن چکے تھے 
ان مضبوط تصریحات کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ یہ قبل اختلاط نہ ہو 

نیز اس روایت کا ایک اور شاھد بھی موجود ہے اور سند سے 
جسکی سند درج ذیل ہے :

17152 - حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن معاوية يعني ابن صالح، عن يونس بن سيف، عن الحارث بن زياد، عن أبي رهم، عن العرباض بن سارية السلمي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم علم معاوية الكتاب والحساب وقه العذاب
(مسند احمد بن حنبل)

اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے  الحارث بن زیاد کے ضعف کے 

اسی لیے اس روایت کو امام ذھبی سیر اعلام میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وللحديث شاهد قوي.
أبو مسهر: حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني - وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم -:
أن النبي -صلى الله عليه وسلم - قال لمعاوية: (اللهم علمه الكتاب، والحساب، وقه العذاب)

اس روایت کا قوی شاھد موجود ہے 
جسکو ابو مسھر نے بیان کیا ہے عبدالرحمن بن ابی عمیرہ المزنی سے :
نبی کریمﷺ نے فرمایا : اے اللہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب اور فرائض کا علم سکھا اور انہیں عذاب سے بچا
(سیر اعلام النبلاء جلد ۳ ص ۱۲۴)

تحقیق : دعاگو رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

Comments

Popular posts from this blog

پیش حق مژدہ شفاعت کا تضمین بر کلام امام احمد رضا

.کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہہ جائے گا تضمین بر کلامِ سیِّد کفایت علی کافیٓ علیہ الرحمہ