القاب میں غلو کرنا ، اہنے آپ کو عالم مفتی کہنا ؟؟؟ علامہ عنائیت اللہ

القاب میں تقصیر یا غلو...........؟؟
خود کو عالم مفتی لکھنا..........؟؟
کون سا پیر،عالم نمبر ون..........؟؟
القرآن،ترجمہ:
آپس کےاحسان.و.فضیلت کو نہ بھلاؤ(بقرہ237)
الحدیث،ترجمہ:
لوگوں کو ان کے مقام و مرتبے پر رکھو
(سنن ابوداود حدیث4842)
بافضل باعمل سچے اچھے علماء سادات اسلاف حتی کہ عوام میں سے جو فضل رکھتا ہو اس کا نام بھی اکا دکا یا کچھ نا کچھ مناسب سچے ادبی القاب سےلیاجائے،لکھاجائے...وہ القابات لکھے بولے جائیں جو انکے مقام و مرتبے کے موافق ہوں…غلو سے بھی بچا جائے…بےادبی، تحقیر، تقصیر، احسان فراموشی جرم ہیں...اعتدال.و.سچائی لازم
۔
مگر القاب کی طلب یا القاب نہ لگنے پے ناراضگی طلب شہرت کی نشانی ہے۔۔۔۔۔قابل مذمت ہے
الحدیث،ترجمہ
دنیا دولت کی حرص اور طلب شہرت مومن کےدین کونقصان پہنچاتےہیں(ترمذی حدیث2376)

.
الحدیث،ترجمہ:
متنطعون(تعریف تنقید تقریر تحریر وغیرہ قول یا عمل میں غلو.و.مبالغہ کرنےوالے)ہلاکت میں ہیں(مسلم حدیث6784)
اعتدال.و.سچائی لازم
.
الحدیث:
إذا رأيتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب
ترجمہ:
جب تم مدّاحین(تعریف میں مبالغہ کرنے والوں، بے جا،جھوٹی تعریف کرنے والوں،لالچ، مفاد، دولت، شہرت کے لیے تعریف کرنے والوں)کو دیکھو تو ان کے چہروں پر خاک پھینکو.(مسلم حدیث3002)
.

حضرت سیدنا قتادہ سے روایت ہے کہ:
فعظموا ما عظم الله
ترجمہ:
جس کو اللہ نے عظمت دی ہے اسکی تعظیم کرو
(تفسیر طبری روایت نمبر16698، تفسیر ابن کثیر4/149)
.
الحدیث:
قولوا بقولكم، أو بعض قولكم، ولا يستجرينكم الشيطان
ترجمہ:
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کچھ الفاظ کہے گئے تھے تو اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ)
تعظیم کے الفاظ کہو یا بعض الفاظ کہو لیکن خیال رہے کہ شیطان تمھیں جری نا بنا دے
(یعنی شیطان تمھیں تعظیم میں حد سے بڑھنے والا،غلو کرنے والا بےباک نا بنا دے)
(ابو داؤد حدیث نمبر4806)
.

جسکو اللہ نے عزت و عظمت دی ہے اسکی عزت تعظیم.و.قدر کرنی چاہیے مگر حد میں رہتے ہوئے.....!!
نجدی خارجی لوگ توحید اور اللہ کی شان بیان کرنے کی آڑ میں انبیاء کرام اولیاء کرام کی توہین و تنقیص کرتے ہیں، عام آدمی کہتے لکھتے ہیں، محتاج و بےبس ظاہر کرتے ہیں، غیر اللہ کی تعظیم کو مطلقا شرک و بدعت کہتے ہیں وہ ٹھیک نہیں.......ہرگز نہیں...کم سے کم گمراہ تو ضرور ہیں بلکہ کبھی توہین کفر بھی ہوجاتی ہے....اسی طرح اہلسنت وغیرہ میں سے وہ جاہل کم علم غلو کرنے والے حضرات بھی ٹھیک نہین جو انبیاء کرام و اولیاء کرام کی تعظیم میں حد سے بڑھ جائیں،انہیں سجدے کرتے پھریں،انکی منتیں مانگتے پھریں.........!!
لیکن
یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ تعظیم میں بڑھ جانا کبھی مکروہ ہوتا ہے کبھی گناہ اور کبھی گمراہی اور کبھی کفر و شرک، لیھذا ذرا ذرا سی بات پر شرک کفر، شرک کفر کے فتوے لگانے والے توحیدی جہادی نہیں شیطانی و فسادی ہیں.........!!
.
جب اہلبیت و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام حتی کہ سیدالانبیاء فداہ روحی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں احتیاط و سچائی لازم تو پھر امتی یعنی علماء مشاءخ صوفیاء مرشد استاد سادات شہداء وغیرہ کی تعریف و شان بیان کرنے میں بھی اسلامی حد، احتیاط و سچائی بدرجہ اولی لازم......!!

.
خود کو عالم مفتی لکھنا.........؟؟
القرآن،ترجمہ:
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں(سورہ یوسف ایت 55)
اس آیت مبارکہ سے علمائے کرام نے دلیل اخذ کی ہے کہ ویسے تو منصب کی طلب جائز نہیں مگر یہ کہ ضرورت ہو یا خوف ہو کہ نا اہل منصب پر آجائیں گے تو اس حالت میں منصب کی طلب جائز ہے جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے منصب کی طلب کی۔۔۔۔۔اسی طرح اپنے آپ کو عالم وغیرہ لکھنا بھی ٹھیک نہیں مگر جب وقت ضرورت ہو یا اچھا مقصد ہو تو عالم لکھنا مفتی لکھنا اہل کے لیے جائز ہے بشرطیکہ تفاخر نہ ہو تکبر نہ ہو جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو حفاظت والا علم والا کہا۔۔(دیکھیے تفسیر خزائن العرفان مرآة شرح مشکاة وغیرہ)
۔
اپنی منہ اپنی تعریف ٹھیک نہیں مگر اپنے منہ اپنا تعارف یعنی بطور تعارف یا وقت ضرورت القاب لگانا جائز ہے..ڈاکٹر اگر ایم.بی بی ایس وغیرہ لکھے تو اعزاز کی بات ہے اور اگر اچھے مقصد کے لیے عالم خود کو عالم لکھے مفتی خود کو مفتی لکھے تو عیب،اعتراض......؟؟
واقعی کوئی عالم،مفتی ہوتو ڈاکٹر،جج،وکیل کیطرح تعارفا یا دیگر اچھے مقاصد کے تحت عالم مفتی لکھے تو برحق بلکہ کبھی لازم
مگر
اپنی تعریف و تکبر بڑائی مقصد ہو تو ناحق و جرم....غیر مستحق ہو یا بطورِ تکبر عالم ہونا جتاے تو جرم.و.عیب ہے ورنہ ہرگز نہیں
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:
لا بأس للعالم أن يحدث عن نفسه بأنه عالم ليظهر علمه فيستفيد منه الناس وليكن ذلك تحديثا بنعم الله تعالى
(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377)
صاحبِ بہار شریعت خلیفہ اعلی حضرت اسکا تشریحی ترجمہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو
(کہ تفاخر حرام ہے)بلکہ محض تحدیثِ نعمت الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا..(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377,بہار شریعت جلد3 حصہ16 صفحہ627)
اللہ تکبر تفخر دھوکے بازی بدگمانی حق تلفی حسد تحقیر اور غیرمستحق ہوکر القاب لگانے سے محفوظ رکھے..آمین
.
.
کس کے مرید زیادہ................؟؟
کونسا پیر،عالم نمبر ون..........؟؟
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفٰے اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے اسلامی مسائل و خصائل کے خزانے پر مشتمل اپنی شہرۂ آفاق کتاب جنتی زیور میں کیا ہی عمدہ نصیحت لکھی ہے کہ:
ہر مرید پر لازم ہے کہ دوسرے بزرگوں یا دوسرے سلسلہ کی شان میں ہرگز ہرگز کبھی کوئی گستاخی اور بے اَدَبی نہ کرے ، نہ کسی دوسرے پیر کے مریدوں کے سامنے کبھی یہ کہے کہ میرا پیر تمہارے پیر سے اچھا ہے یا ہمارا سلسلہ تمہارے سلسلہ سے بہتر ہے ، نہ یہ کہے کہ ہمارے پیر کے مرید تمہارے پیر سے زیادہ ہیں یا ہمارے پیر کا خاندان تمہارے پیر کے خاندان سے بڑھ چڑھ کر ہے ۔ کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے اور فخر و غرور کا شیطان سر پر سوار ہو کر مرید کو جہنم کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور پیروں و مریدوں کے درمیان نفاق و شقاق، پارٹی بندی اور قسم قسم کے جھگڑوں کا اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ (جنتی زیور، ص378)
اسی طرح علماء کرام ورکرز کے درمیان بھی عموما تقابل نہیں کرنا چاہیے...تمام سرگرم اہلسنت تنظیمات مدارس علماء مشائخ ورکرز کو سلام.......جو اپنی طاقت و بساط مطابق جتنی محنت کر رہا ہےاسکی تعریف و حوصلہ افزائی کی جائے،کسی سرگرم سنی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، جو اپنی طاقت مطابق سرگرم ہے اسے تانہ نہ مارا جائے کہ تم نے کونسے تیر مارے...کسی سنی سرگرم کے بظاہر چھوٹے سے چھوٹے عمل و کردار کو چھوٹا نہ کہا جائے..تعریف و حوصلہ افزائی کی جائے، اہل کی طرف سے تنقید بھی اگر کی جائے تو باسلیقہ پر دلیل ہو، ترقی و تعمیر کے لیے ہو.......!!
.
الحدیث
لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا
کسی بھی نیکی بھلائی کو کمتر ہرگز نہ سمجھو
(صحيح مسلم حدیث نمبر2626)
کسی بھی مسلمان ، ورکر ،عالم، پیر کو کمتر نہ سمجھا جاءے۔۔۔۔۔جو بھی اپنی بساط کے مطابق نیک کام خدمات کر رہا ہے اس کو کمتر و حقیر نہ سمجھا جائے۔۔۔ہاں حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مزید ترقی، مزید خدمات کی طرف توجہ دلائی جائے۔۔۔۔۔۔!!
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,telegram nmbr
03468392475

Comments

Popular posts from this blog

پیش حق مژدہ شفاعت کا تضمین بر کلام امام احمد رضا

.کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہہ جائے گا تضمین بر کلامِ سیِّد کفایت علی کافیٓ علیہ الرحمہ