کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر از احتشام فاروقی
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر از احتشام فاروقی
06 مارچ 2020
وطن عزیز کی صوتحال انتہائی افسوناک ہوتی چلی جارہی ہے. علمم اور کتابوں سے شغف رکھنے والے لوگ بہت کم رہہ گئے ہیں. لیکن شاعر، سنگرز، ایکٹرز، میں اضافہ خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے. کوئی نیا گانا، نئی فلم ، نیا شاعر، نیا فیشن ،نئےاور بیہودہ سلوگنز اور کوئی بھی نئی بیہودگی کی کہیں سے ہلکی سی بِھنک بھی پڑ جائے تو نوجوان نسل پر مشتمل کی بورڈ واریئرز( keyboard Warriors) اس کو اپنانے میں لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتے. لیکن اگر نئی نہیں آرہی تو وہ سوچ ہے ..وہ فکر ہے ... وہ ملکی ایجادات ہیں.... وہ جذبے ہیں.
در اصل ہماری ترجیحات( priorities)بدل گئی ہیں اب ہماری ترجیحات میں علم اور خدمت رہا ہی نہیں، بلکہ پیسہ اور شہرت کمانا ہے خواہ اسکے لئیے ہمیں اپنا ضمیر تک ہی کیوں نہ نیلام کرنا پڑے.اور یہ سب زوال کے دنوں میں ہوتا ہے اور زوال کب آتا ہے ؟؟
اگر اقبال سے پوچھیں تو اقبال کہتے ہیں
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
- جب قوم ناچ گانے کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر ایام زوال کا لازوال سلسلہ شروع ہوجاتا ہے. مسخرے(Comedians) سوسائٹی کا Icon بن جاتے ہیں.اور نوجوان انکے تقلید کرنے لگتے ہیں آج بھی کچھ یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہیں ٹِک ٹاک ایپ پہ ہر چوتھا نوجوان اسی مرض کا شکار ہے. کوئی ایکٹنگ کے جوہر دکھاتا نظر آتا ہے.کسی کو ڈانس سوجھ رہا ہے تو کوئی جگت بازی میں مگن ہے کوئی، اپنا پسندیدہ گانا background پہ چلا کے آنسو بہاتا نظر آتا ہے ، اور کوئی کسی شاعر کے غمگین سے( دل دہلا دینے والے )اشعار پڑھ کے خون کے آنسو بہاتا نظر آتا ہے. خدا جانے انہیں کونسے دکھ ہیں ؟؟ کونسی مصیبتیں ان پر نازل ہورہی ہیں، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ کسی کو یہ معیوب بھی نئیں لگتا نہ خود اپنے آپ کو نہ بھائی بہن کو اور نہ ہی ماں باپ کو . بلکہ اس بیہودگی کو ٹیلنٹ کا نام دے کے انجوائے کیا جارہا ہے.
گویا ہم ذھنی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں اور اس طوق غلامی کو اتار پھینکنا بھی نہیں چاہتے.جس کا شکوہ ساری زندگی اقبال نے کیا
لیکن مجھے پیدا کیا اس دور میں تونے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
الطاف حسین حالی نے کہا تھا
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر
نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا
جب زوال آتا ہے تو پھر امراء بھی ذلیل ہوتے ہیں.کمال اور جوہری صلاحیتیں ختم ہوتی چلی جاتی ہیں. نہ دین سے رہنمائی ملتی ہے نہ عقل سے، دنیا میں عزت و ذلت کی اور آخرت میں جنت دوزخ کی پرواہ بھی نہیں رہتی. پھر سارا دلال میڈیا بیہودگی کو سپورٹ کرنے یک مشت ہوجاتا ہے.
سوال یہ ہے یہ کب تک رہے گا.....؟؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا.....؟؟ اور اس سارے عمل کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟
سوچئیے اور سوچئیے .....
.
Comments
Post a Comment