ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اُلوہی چراغاں کا اہتمام
ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اُلوہی چراغاں کا اہتمام
(مہربانی فرما کر ایک بار ضرور پڑھیں اور اگر پسند آئے تو آگے پھیلائیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء)
موجودہ دور عجیب اور خطرناک فتنے کا دور ہے کہ جس میں معاذ اللہ بعض مسلمانوں نے ذاتِ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے فضائل و مناقب و کمالات کو تختۂ مشق بنایا ہوا ہے۔ قرآن و حدیث میں انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے سارے مراحل گزارنے کے اصول اور قوانین فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں تمام انسان بالعموم اور مسلمان و مؤمن بالخصوص اپنی ساری زندگی بآسانی بسر کر سکتے ہیں مگر شیطان، نفس اور دنیا انسان کو ہر وقت ورغلانے میں مصروف ہیں۔
جشنِ ولادتِ رسول ﷺ کے معترضین اپنے گریبانوں میں جھانکیں:
موجودہ دور کو ہی دیکھیے کسی بھی مسلمان کے ہاں خصوصاً جب پہلے بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا، اسی وقت اہلِ خانہ اور اعزہ و اقارب کے لئے مٹھائی کا اہتمام کرتا ہے۔ محلے داروں اور رشتہ داروں میں مٹھائیاں تقسیم کرتا ہے، کھانے کی دعوتوں کا اہتمام کرتا ہے۔ اس موقع پر کوئی مسلمان قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتا کہ خوشی میں ایسا جائز ہے یا نہیں؟ کیا دورِ رسالت مآب ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں اس کی کوئی تعلیم ملتی ہے؟
پھر بلا تفریق مسلک و مذہب جب کسی مسلمان کے ہاں بیٹی، بیٹے ، بہن بھائی یا کسی اور عزیز کی شادی ہوتی ہے تو خوشی میں ہر کوئی نئے کپڑے سلاتا ہے، نئے جوتے خریدتا ہے، شادی والے گھر کو لائٹوں سے روشن کر دیا جاتا ہے حتی کے گلی محلے کو بھی جگمگا دیا جاتا ہے اور دلہن کے کمرے کو تو خوب بنایا سنوارا جاتا ہے، مزید برآں شادی کے موقع پر دولہا دلہن سمیت خاندان کے بڑوں کو تحفے تحائف سے بھی نوازا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں مہذب و شائستہ گھریلو رسومات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ورنہ بعض شادیوں پر فسوق و فجور بھی دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔ الامان الحفیظ۔ مذکورہ مہذب رسومات بجا لانے سے کسی مسلک کے علماء، خطباء، مدرسین، شیوخ الحدیث اور فقہاء سمیت کسی کا گھر بھی خالی نہیں ہے الا ما شاء اللہ۔ سوال یہ ہے کہ ان رسومات کو ادا کرتے یا ہوتے دیکھ کر کوئی قرآن و حدیث کا حوالہ نہ دیکھتا ہے نہ مانگتا ہے، کوئی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ کیا دورِ رسالت مآب ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں یہ رسومات موجود تھیں؟ غالباً ہر ایک کو اس کا جواب بھی معلوم ہو گا کہ قرونِ اولیٰ میں ولادت اور شادی بیاہ کی ایسی کوئی رسومات نہ تھیں۔ پھر سنی، دیو بندی، اہلِ حدیث اور شیعہ ہر کوئی ان رسومات کو کیوں کیے جا رہا ہے؟
آگے دیکھیے کہ ہر مسلک والا اپنی مساجد کی تعمیر و تزئین کو دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرے کہ قرآن و حدیث میں کون سی مساجد کی مدح ہوئی ہے اور قرونِ اولیٰ میں کیسی مساجد تھیں، تو یہاں بھی واضح تضاد نظر آئے گا۔ آج کل تو محض پانچ مرلہ کی مسجد پر بھی لاکھوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں رات رات بھر اور کئی ایک دن سے زائد پر محیط عظیم الشان مذہبی جلسے، جلوس، اجتماعات، سیمینارز اور ریلیاں کتنے ہی لاکھوں روپے کے خرچے اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی کوئی قرآن و حدیث سے سندِ جواز نہیں مانگتا؟
قومی ایام کو دیکھیں تو وہ بھی ہر مسلک کا پیروکار جوش و خروش سے اپنی بساط اور فکر کے مطابق مناتے دکھائی دیتا ہے۔ پھر بیت اللہ کے غلاف پر منوں سونے کی چڑھائی، کیوں اور کس لیے؟
سوال پہلے جیسا ہی ہے کہ ان سارے مصارف میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوئے ہر مسلک کا عالم، مقرر، خطیب اور شیخ الحدیث قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتا؟ کیوں اندھا دھند روپیہ خرچ کرتا جاتا ہے یا خاموش تما شائی بنا بیٹھا رہتا ہے؟
ہر ایک کے پاس ان سوالوں کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں حدود کے اندر خوشی کا اہتمام کرنا جائز ہے، اسی طرح موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق مساجد اور منبر و محراب کی تزئین اور تبلیغی مقاصد کے لیے جلسے جلوس کیے جاسکتے ہیں۔بالکل درست بات ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ.....محبت و اطاعتِ رسولﷺ کے استحکام کا ذریعہ:
جب رحمۃ للعالمین، امام الانبیاء، سید المرسلین، حبیبِ کبریاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت کا مہینہ ربیع الاول آتا ہے۔ تو اس مہینہ میں خوشی اور فرحت سے چراغاں کرنے، گھر، گلیاں، بازار سجانے، کھانے کھلانے، جلوس نکالنے اور نعتیں پڑھنے پر بعض مسلمان چہ بجبیں کیوں ہوتے ہیں؟ ان مبارک ایام میں جھنڈیوں، لائٹوں اور کھانوں پر اعتراضات کی بوچھاڑ کیوں شروع کر دیتے ہیں؟ ان سعادت بھرے لمحات میں انہیں اپنا پیش کردہ جواز کیوں نظر نہیں آتا؟ تاریخِ ولادت میں اگر اختلاف ہے، اگرچہ اکثر محققین کا بارہ ربیع الاول کا قول ہے، پھر بھی اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ماہِ ولادت ربیع الاول پر تو سب کا اتفاق ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر مسلمان جیسے اپنے بیٹے، بیٹی کی ولادت اور شادی کے موقع پر خوشی کا والہانہ اظہار کرتا ہے اور مساجد و جلسے و اجتماعات پر لاکھوں خرچ کرتا ہے، حضور نبی کریم ﷺ کے ولادت کے مہینہ میں اس کی خوشی ہر خوشی سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ لیکن اس ماہِ سعید میں بعض مسلمان فتووں کی تلواریں اپنے نیام سے نکال لیتے ہیں اور دلیل دلیل کی رَٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ انہیں از خود معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح ہم نے اپنے باقی مذہبی و معاشرتی معاملات و رسومات میں زمانہ کے تقاضوں کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں جواز نکالا ہے، ویسے ہی سرکارِ دو عالم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اس کا جواز بھی نکلتا ہے۔ اس کے بر خلاف ان کے اعمال اس بات کی صریح گواہی دیتے ہیں کہ ان مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی ولادت کی خوشی سے بڑھ کر ان کے بیٹے بیٹی کی ولادت اور شادی کی خوشی اور مساجد کی تزئین و آرائش اور عالی شان جلسے و اجتماعات ہیں ۔ افسوس در افسوس، ایسے ایمان سے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ احادیثِ صحیحہ واضح ہیں کہ مسلمانوں میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت اسے اپنے والدین، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو جائے۔
اپنے حبیبِ مکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں چراغاں کا اہتمام خود ذاتِ باری تعالی ٰنے اپنی شان کے لائق کیا تھا۔ اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب رحمۃً للعالمین ﷺ کی ولادت کی خوشی میں ارض و سماء میں نور بکھیر دیا تھا۔ بعض احادیثِ مبارکہ ذیل میں مطالعہ کیجیے:
۱۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ صحیح:
امام احمد بن حنبل نے اپنی متصل سند سے حدیثِ صحیح روایت کی ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ وَهُوَ الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي عَبْدُ اللهِ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ " فَذَكَرَ مِثْلَهُ. وَزَادَ فِيهِ: إِنَّ أُمَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْهُ نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ.
(مسند احمد بن حنبل، ۲۸: ۳۸۲، رقم: ۱۷۱۵۱۔)
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک میں اللہ کا بندہ، سارے نبیوں میں آخری ہوں۔‘‘ پچھلی حدیث کا مضمون بیان کرنے کے بعد اس میں یہ اضافہ کیا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ کی ولادت کے وقت ایک نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
جلیل القدر حافظِ حدیث ابنِ حجر عسقلانی نے اپنی معروف کتاب ’فتح الباری‘ میں لکھا ہے:
فَلَمَّا وَلَدَتْ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَيْت وَالدَّار. وَشَاهِده حَدِيث الْعِرْبَاض بْن سَارِيَة قَالَ: سَمِعْت رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: (إِنِّي عَبْد اللَّه وَخَاتَم النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَم لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَته، وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: إِنِّي دَعْوَة أَبِي إِبْرَاهِيم، وَبِشَارَة عِيسَى بِي، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ، وَكَذَلِكَ أُمَّهَات النَّبِيِّينَ يَرَيْنَ، وَإِنَّ أُمّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَتْ حِين وَضَعَتْهُ نُورًا أَضَاءَتْ لَهُ قُصُور الشَّام) أَخْرَجَهُ أَحْمَد وَصَحَّحَهُ اِبْن حِبَّانَ وَالْحَاكِم وَفِي حَدِيث أَبِي أُمَامَةُ عِنْد أَحْمَد نَحْوه.
(فتح الباری، ۶: ۵۸۳)
’’جب سیدہ آمنہ کے ہاں حضورﷺ کی ولادت ہوئی تو ان سے نور ظاہر ہوا جس سے گھر اور در و دیوار روشن ہو گئے۔ اس حدیث کی شاہد حضرت عرباض بن ساریہ سےمروی حدیث ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بے شک میں اللہ کا بندہ اور سارے نبیوں میں آخری ہوں حالانکہ حضرت آدمؑ ابھی مٹی کے خمیر کی حالت میں تھے (لیکن مجھے اس منصب سے نواز دیا گیا) اور میں ابھی تمہیں اس حقیقت سے خبردار کرتا ہوں: یقیناً میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہوں، حضرت عیسیٰؑ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا وہ مشاہدہ ہوں جو انہوں نے دیکھا اور انبیاء کرام کی مائیں ایسے ہی دیکھا کرتی ہیں، اور یقیناً رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی ولادت کے وقت ایک نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور امام ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی مثل مسند احمد میں حضرت ابو امامہ سے مروی حدیث بھی ہے۔‘‘
امام حاکم کی المستدرک کے جلد دوم کے صفحہ ۶۵۶، رقم: ۴۱۷۵ پر حضرت عرباضؓ بن ساریہ سے مروی حدیث درج ہے۔ انہوں نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ’’یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
اہلِ علم جانتے ہیں کہ المستدرک پر بلند پایہ حافظِ حدیث شمس الدین ذہبی کی تعلیقات ہیں۔ انہوں نے امام حاکم کی مرویات کو اصولِ جرح و تعدیل پر پرکھ کر حکم لگایا ہے۔ امام ذہبی نے مذکور بالا حدیثِ مبارک کے متعلق لکھا ہے کہ یہ حدیث ’صحیح‘ ہے۔
۲۔ حضرت ابو اُمامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ صحیح:
مسند احمد بن حنبل، مسند الرویانی اور دیگر کتبِ حدیث میں موضوع ہٰذا پر متصل سند سے ایک اور صحیح حدیثِ مبارک حضرت ابو امامہ الباہلیؓ سے مروی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں مروی حدیث کا متن مع سند مطالعہ کیجیے:
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ، حَدَّثَنَا لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، مَا كَانَ أَوَّلُ بَدْءِ أَمْرِكَ؟ قَالَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبُشْرَى عِيسَى، وَرَأَتْ أُمِّي أَنَّهُ يَخْرُجُ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ.
() ۱۔ مسند احمد بن حنبل، ۳۶: ۵۹۶، رقم: ۲۲۲۶۱۔
۲۔ مسند الرویانی، ۲: ۳۱۱، رقم: ۱۲۶۷
۳۔ مسند الشامیین للطبرانی، ۲: ۴۰۲، رقم: ۱۵۸۲
’’حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! (دنیا میں) آپ کے امرِ نبوت پر سب سے پہلے کیا چیز ظاہر ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور (میری ولادت کے وقت) میری امی جان نے دیکھا کہ ان سے نور ظاہر ہو رہا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اس حدیثِ مبارک کے سارے راوی ثقہ صدوق ہیں سوائے فرج بن فضالہ کے۔ اس پر اختلاف ہے۔ بعض جلیل القدر ائمہ جیسے عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن معین، ابو زکریا اور احمد بن حنبل نے اسے قابلِ اعتماد اور ثقہ قرار دیا ہے۔ اسے ضعیف کہنے والوں نے اس کی یحییٰ بن سعید الانصاری سے مرویات پر شدید تنقید کی ہے لیکن اس کی جو مرویات اہلِ شام سے ہیں، انہیں قبول کیا ہے۔ (دیکھیے خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد، ۱۴: ۳۷۷، رقم: ۶۸۰۸) لہٰذا مذکورہ روایت فرج بن فضالہ نے لقمان بن عامر شامی سے روایت کی ہے سو یہ قابلِ قبول ہے۔
نیز مذکور حدیثِ مبارک کے متعلق امام نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی (متوفی ۸۰۷ھ) نے اپنی کتاب ’مجمع الزوائد، ۸: ۲۲۲، رقم: ۱۳۸۴۲‘ میں لکھا ہے:
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَلَهُ شَوَاهِدُ تُقَوِّيهِ.
’’اس حدیثِ مبارک کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اِسناد حسن ہے اور اس کے دیگر شواہد سے اسے تقویت ملتی ہے۔‘‘
۳۔ حضرت عُتبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ صحیح:
موضوع ہٰذا پر ایک اور صحیح حدیثِ مبارک تیسرے صحابی حضرت عتبہ بن عبد السلمیؓ سے مروی ہے۔ امام حاکم نے اپنی المستدرک میں یہ طویل حدیثِ مبارک روایت کی ہے۔ ذیل میں اس کا متن مع سند مطالعہ کیجیے:
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّ رَجُلًا، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ فيه: فَقَالَتْ أي أُمِّي: إِنِّي رَأَيْتُ خَرَجَ مِنِّي نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ. «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي]
4230 - على شرط مسلم.
() ۱۔ المستدرک للحاکم، ۲: ۶۷۳، رقم: ۴۲۳۰
۲۔ المسند العلی فی زوائد مسند أبي يعلى للهيثمي، ۲: ۸۷۲
۳۔ مسند احمد بن حنبل، ۲۹: ۱۹۶، رقم: ۱۷۶۴۸
۴۔ مسند الشامیین للطبرانی، ۲: ۱۹۸، رقم: ۱۱۸۱
’’حضرت عتبہ بن عبد السلمیؓ نے روایت کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے سوال کیا: یا رسول اللہ! (دنیا میں ولادتِ مبارکہ کے بعد) آپ کی شانِ نبوت میں کیا ظاہر ہوا؟ آپ ﷺ نے اس میں ایک شان یہ بیان فرمائی کہ میری امی جان نے فرمایا کہ (محمد مصطفی ﷺ کی ولادت کے وقت) میں نے دیکھا کہ مجھ سے ایک نو ر ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘ امام حاکم نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ امام مسلم کی شرائطِ حدیث پر یہ حدیث صحیح ہے مگر بخاری و مسلم نے اسے بیان نہیں کیا۔
حافظ شمس الدین ذہبی نے اس حدیث کی تعلیق میں لکھا ہے کہ واقعی یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
حضرت عتبہ ؓسے مروی مذکور حدیثِ مبارک میں بقیہ بن ولید کے علاوہ سارے رُواۃ ثقہ، صدوق اور قابلِ اعتماد ہیں۔ بقیہ بن ولید شدید مدلس راوی ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک جب تک مدلس راوی سماعت یا تحدیث کی صراحت نہ کر دے اس کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ ہم نے جو امام حاکم کے طریق سے روایت درج کی ہے اس میں بقیہ بن ولید نے بحیر بن سعد سے تحدیث کو صراحت سے بیان کیا ہے لہٰذا اس کی یہ روایت صحت کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ امام نسائی نے بھی ولید کے متعلق یہی اصول بیان کیا ہے۔ حوالہ کے لیے حافظ ذہبی کی کتاب ’ ذکر أسماء من تكلم فيه وهو موثق کا صفحہ ۵۴‘ پڑھیے۔
خلاصۂ بحث:
مذکور بالا بحث کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:
۱۔ فی زمانہ تقاضوں کے مطابق جس طرح ہم نے قرآن و حدیث کی عطا کردہ شرعی حدود میں دیگر مذہبی، معاشرتی اور قومی اعمال اور رسوم کو اپنا لیا ہے اسی طرح موجودہ دور میں خاتم النبیین سیدنا ومولانا محمد مصطفی ﷺ سے محبت و عشق اور اطاعت و اتباع کا تعلق پختہ کرنے کے لیے آپ ﷺ کا یومِ ولادت اور ماہِ ولادت جوش و خروش سے منانا عین تقاضائے ایمان ہے۔
۲۔ سیرتِ طیبہ اور دلائلِ نبوت پر لکھی گئی بیشتر کتب میں مروی ہے کہ اللہ رب العزت نے خالقِ کائنات ہوتے ہوئے اپنے محبوب کی ولادت کے ماہ و سال میں اہلِ ارض کو خصوصی عنایات و اکرامات سے نوازا۔ لہٰذا بحیثیتِ امتی شکرانے کے طور پر ہمیں بھی ان ایام کو خصوصی منانا چاہیے۔
۳۔ مندرجہ بالا صفحات میں معتبر کتبِ حدیث سے احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العالمین نے ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے وقت ہر طرف نور بکھیر دیا۔ اس کا مشاہدہ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ نے خود کیا جسے بعد ازاں صحابہ کرام کے سامنے رسول اللہ ﷺ نے بنفسِ نفیس بیان کیا۔ یہ فرامینِ عالیہ بھی ولادتِ مبارکہ کی رات اور دن کی گھڑیوں کی مخلوق کے سامنے خصوصی عظمت و رفعت آشکار کرتے ہیں۔
۴۔ ان فرامینِ رسول ﷺ کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ یومِ ولادتِ رسول ﷺ کو صحابہ کرام نے کب جوش و خروش سے منایا تھا؟ یاد رکھیے ہم پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم ﷺ کی اطاعت مطلقاً غیر مشروط فرض ہے۔ باقی ہر کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے تابع ہے۔ سو اگر کسی بھی وجہ سے ان کا کوئی ایسا عمل ہمارے سامنے نہیں آیا تو ہم شرعاً اس کو نہ کرنے کے پابند نہیں بلکہ فرمانِ رسول ﷺ اور سنتِ الٰہیہ کو ہی ہر ایک پر فوقیت ہو گی اور وہ یہی ہے کہ ولادتِ رسول ﷺ کے ایام کو خاص اہتمام سے منایا جائے۔ یا کم از کم فی زمانہ اپنی دیگر خوشیاں مناتے ہوئے ہی یہ خیال کر لیا جائے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں پوری کائنات کی جمیع خلق میں سب سے بہتر اور اعلیٰ محبوب سے نوازا ہے تو ہم باقی سب خوشیوں سے بڑھ کر محبوبِ خدا ﷺ کی آمد کی خوشی کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دین کا کامل فہم عطا فرمائے اور تا دمِ آخر اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی محبت و اطاعت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
(خادم العلم والعلماء: حافظ فرحان ثنائی القادری)
Comments
Post a Comment